Urdu poetry

Monday, March 29, 2021

غیر کو منہ لگا کے دیکھ لیا (DAGH DEHLVI) (Urdu Poetry)

 غیر کو منہ لگا کے دیکھ لیا 


جھوٹ سچ آزما کے دیکھ لیا 


ان کے گھر داغؔ جا کے دیکھ لیا 


دل کے کہنے میں آ کے دیکھ لیا 


کتنی فرحت فزا تھی بوئے وفا 


اس نے دل کو جلا کے دیکھ لیا 


کبھی غش میں رہا شب وعدہ 


کبھی گردن اٹھا کے دیکھ لیا 


جنس دل ہے یہ وہ نہیں سودا 


ہر جگہ سے منگا کے دیکھ لیا 


لوگ کہتے ہیں چپ لگی ہے تجھے 


حال دل بھی سنا کے دیکھ لیا 


جاؤ بھی کیا کرو گے مہر و وفا 


بارہا آزما کے دیکھ لیا 


زخم دل میں نہیں ہے قطرۂ خوں 


خوب ہم نے دکھا کے دیکھ لیا 


ادھر آئینہ ہے ادھر دل ہے 


جس کو چاہا اٹھا کے دیکھ لیا 


ان کو خلوت سرا میں بے پردہ 


صاف میدان پا کے دیکھ لیا 


اس نے صبح شب وصال مجھے 


جاتے جاتے بھی آ کے دیکھ لیا 


تم کو ہے وصل غیر سے انکار 


اور جو ہم نے آ کے دیکھ لیا 


داغؔ نے خوب عاشقی کا مزا 


جل کے دیکھا جلا کے دیکھ لیا

Saturday, March 13, 2021

جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے (urdu poetry )


جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے 


کس قدر ہم کو شادمانی ہے 


شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے 


یہ مرا فن خاندانی ہے 


کیوں لب التجا کو دوں جنبش 


تم نہ مانوگے اور نہ مانی ہے 


آپ ہم کو سکھائیں رسم وفا 


مہربانی ہے مہربانی ہے 


دل ملا ہے جنہیں ہمارا سا 


تلخ ان سب کی زندگانی ہے 


کوئی صدمہ ضرور پہنچے گا 


آج کچھ دل کو شادمانی ہے

Friday, March 12, 2021

شکوہ (علامہ اقبال)(shikwa( ALLAMA IQBAL)(Urdu poetry

 کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں 


فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں 


نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں 


ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں 


جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو 


شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو 


ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم 


قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم 


ساز خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم 


نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم 


اے خدا شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے 


خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے 


تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم 


پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم 


شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم 


بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم 


ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی 


ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی 


ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر 


کہیں مسجود تھے پتھر کہیں معبود شجر 


خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر 


مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر 


تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا 


قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا 


بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی تورانی بھی 


اہل چیں چین میں ایران میں ساسانی بھی 


اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی 


اسی دنیا میں یہودی بھی تھے نصرانی بھی 


پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے 


بات جو بگڑی ہوئی تھی وہ بنائی کس نے 


تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں 


خشکیوں میں کبھی لڑتے کبھی دریاؤں میں 


دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں 


کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں 


شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی 


کلمہ پڑھتے تھے ہمیں چھاؤں میں تلواروں کی 


ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لیے 


اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے 


تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے 


سر بکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے 


قوم اپنی جو زرو و مال جہاں پر مرتی 


بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی 


ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے 


پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے 


تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے 


تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے 


نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے 


زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے 


تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خبیر کس نے 


شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے 


توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے 


کاٹ کر رکھ دئیے کفار کے لشکر کس نے 


کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو 


کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو 


کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی 


اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی 


کس کی شمشیر جہانگیر جہاں دار ہوئی 


کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی 


کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے 


منہ کے بل گر کے ہو اللہ احد کہتے تھے 


آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز 


قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی ہوئی قوم حجاز 


ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز 


نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز 


بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے 


تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے 


محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے 


مئے توحید کو لے کر صفت جام پھرے 


کوہ میں دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے 


اور معلوم ہے تجھ کو کبھی ناکام پھرے 


دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے 


بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے 


صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے 


نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے 


تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے 


تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے 


پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں 


ہم وفادار نہیں تو بھی تو دل دار نہیں 


امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہ گار بھی ہیں 


عجز والے بھی ہیں مست مئے پندار بھی ہیں 


ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں 


سیکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بے زار بھی ہیں 


رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر 


برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر 


بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے 


ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے 


منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے 


اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے 


خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں 


اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں 


یہ شکایت نہیں ہیں ان کے خزانے معمور 


نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور 


قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور 


اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور 


اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں 


بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں 


کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب 


تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب 


تو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب 


رہرو دشت ہو سیلی زدۂ موج سراب 


طعن اغیار ہے رسوائی ہے ناداری ہے 


کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے 


بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا 


رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا 


ہم تو رخصت ہوئے اوروں نے سنبھالی دنیا 


پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا 


ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے 


کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے 


تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے 


شب کی آہیں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے 


دل تجھے دے بھی گئے اپنا صلہ لے بھی گئے 


آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے 


آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر 


اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر 


درد لیلیٰ بھی وہی قیس کا پہلو بھی وہی 


نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی 


عشق کا دل بھی وہی حسن کا جادو بھی وہی 


امت احمد مرسل بھی وہی تو بھی وہی 


پھر یہ آزردگی غیر سبب کیا معنی 


اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی 


تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربی کو چھوڑا 


بت گری پیشہ کیا بت شکنی کو چھوڑا 


عشق کو عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا 


رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا 


آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں 


زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں 


عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی 


جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی 


مضطرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی 


اور پابندی آئین وفا بھی نہ سہی 


کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے 


بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے 


سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے 


اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے 


آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے 


پھونک دی گرمی رخسار سے محفل تو نے 


آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں 


ہم وہی سوختہ ساماں ہیں تجھے یاد نہیں 


وادی نجد میں وہ شور سلاسل نہ رہا 


قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا 


حوصلے وہ نہ رہے ہم نہ رہے دل نہ رہا 


گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا 


اے خوشا آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی 


بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی 


بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے 


سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کو کو بیٹھے 


دور ہنگامۂ گلزار سے یکسو بیٹھے 


تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ہو بیٹھے 


اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزی دے 


برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے 


قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز 


لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز 


مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز 


تو ذرا چھیڑ تو دے تشنۂ مضراب ہے ساز 


نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے 


طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے 


مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے 


مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے 


جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے 


ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے 


جوئے خوں می چکد از حسرت دیرینۂ ما 


می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما 


بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن 


کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن 


عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن 


اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرداز چمن 


ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک 


اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک 


قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں 


پتیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں 


وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں 


ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں بھی ہوئیں 


قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی 


کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی 


لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزہ جینے میں 


کچھ مزہ ہے تو یہی خون جگر پینے میں 


کتنے بیتاب ہیں جوہر مرے آئینے میں 


کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں 


اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں 


داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں 


چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں 


جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں 


یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں 


پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں 


عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری 


نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری 


kyuuñ zayāñ-kār banūñ sūd-farāmosh rahūñ

fikr-e-fardā na karūñ mahv-e-ġham-e-dosh rahūñ

naale bulbul ke sunūñ aur hama-tan gosh rahūñ

ham-navā maiñ bhī koī gul huuñ ki ḳhāmosh rahūñ

jur.at-āmoz mirī tāb-e-suḳhan hai mujh ko

shikva allāh se ḳhākam-ba-dahan hai mujh ko

hai bajā sheva-e-taslīm meñ mash.hūr haiñ ham

qissa-e-dard sunāte haiñ ki majbūr haiñ ham

saaz ḳhāmosh haiñ fariyād se māmūr haiñ ham

naala aatā hai agar lab pe to māzūr haiñ ham

ai ḳhudā shikva-e-arbāb-e-vafā bhī sun le

ḳhūgar-e-hamd se thoḌā gila bhī sun le

thī to maujūd azal se tirī zāt-e-qadīm

phuul thā zeb-e-chaman par na pareshāñ thī shamīm

shart insāf hai ai sāhib-e-altāf-e-amīm

bū-e-gul phailtī kis tarah jo hotī na nasīm

ham ko jam.īyat-e-ḳhātir ye pareshānī thī

varna ummat tire mahbūb dīvānī thī

ham se pahle thā ajab tere jahāñ manzar

kahīñ masjūd the patthar kahīñ mābūd shajar

ḳhūgar-e-paikar-e-mahsūs thī insāñ nazar

māntā phir koī an-dekhe ḳhudā ko kyūñkar

tujh ko mālūm hai letā thā koī naam tirā

quvvat-e-bāzu-e-muslim ne kiyā kaam tirā

bas rahe the yahīñ saljūq bhī tūrānī bhī

ahl-e-chīñ chiin meñ īrān meñ sāsānī bhī

isī māmūre meñ ābād the yūnānī bhī

isī duniyā meñ yahūdī bhī the nasrānī bhī

par tire naam pe talvār uThā.ī kis ne

baat jo bigḌī huī thī vo banā.ī kis ne

the hamīñ ek tire mārka-ārāoñ meñ

ḳhushkiyoñ meñ kabhī laḌte kabhī dariyāoñ meñ

diiñ azāneñ kabhī europe ke kalīsāoñ meñ

kabhī africa ke tapte hue sahrāoñ meñ

shaan āñkhoñ meñ na jachtī thī jahāñ-dāroñ

kalma paḌhte the hamīñ chhāñv meñ talvāroñ

ham jo jiite the to jañgoñ musībat ke liye

aur marte the tire naam azmat ke liye

thī na kuchh teġhzanī apnī hukūmat ke liye

sar-ba-kaf phirte the kyā dahr meñ daulat ke liye

qaum apnī jo zar-o-māl-e-jahāñ par martī

but-faroshī ke evaz but-shikanī kyuuñ kartī

Tal na sakte the agar jañg meñ aḌ jaate the

paañv sheroñ ke bhī maidāñ se ukhaḌ jaate the

tujh se sarkash huā koī to bigaḌ jaate the

teġh kyā chiiz hai ham top se laḌ jaate the

naqsh-e-tauhīd har dil pe biThāyā ham ne

zer-e-ḳhanjar bhī ye paiġhām sunāyā ham ne

kah de ki ukhāḌā dar-e-ḳhaibar kis ne

shahr qaisar jo thā us ko kiyā sar kis ne

toḌe maḳhlūq ḳhudāvandoñ ke paikar kis ne

kaaT kar rakh diye kuffār ke lashkar kis ne

kis ne ThanDā kiyā ātish-kada-e-īrāñ ko

kis ne phir zinda kiyā tazkira-e-yazdāñ ko

kaun qaum faqat terī talabgār huī

aur tere liye zahmat-kash-e-paikār huī

kis shamshīr jahāñgīr jahāñ-dār huī

kis takbīr se duniyā tirī bedār huī

kis haibat se sanam sahme hue rahte the

muñh ke bal gir ke hū-allahu-ahad kahte the

aa gayā ain laḌā.ī meñ agar vaqt-e-namāz

qibla-rū ho ke zamīñ-bos huī qaum-e-hijāz

ek saf meñ khaḌe ho ga.e mahmūd o ayaaz

na koī banda rahā aur na koī banda-navāz

banda o sāhab o mohtāj o ġhanī ek hue

terī sarkār meñ pahuñche to sabhī ek hue

mahfil-e-kaun-o-makāñ meñ sahar o shaam phire

mai-e-tauhīd ko le kar sifat-e-jām phire

koh meñ dasht meñ le kar tirā paiġhām phire

aur mālūm hai tujh ko kabhī nākām phire

dasht to dasht haiñ dariyā bhī na chhoḌe ham ne

bahr-e-zulmāt meñ dauḌā diye ghoḌe ham ne

safha-e-dahr se bātil ko miTāyā ham ne

nau-e-insāñ ko ġhulāmī se chhuḌāyā ham ne

tere ka.abe ko jabīnoñ se basāyā ham ne

tere qur.ān ko sīnoñ se lagāyā ham ne

phir bhī ham se ye gila hai ki vafādār nahīñ

ham vafādār nahīñ bhī to dildār nahīñ

ummateñ aur bhī haiñ un meñ gunahgār bhī haiñ

ijz vaale bhī haiñ mast-e-mai-e-pindār bhī haiñ

un meñ kāhil bhī haiñ ġhāfil bhī haiñ hushyār bhī haiñ

saikḌoñ haiñ ki tire naam se be-zār bhī haiñ

rahmateñ haiñ tirī aġhyār ke kāshānoñ par

barq girtī hai to bechāre musalmānoñ par

but sanam-ḳhānoñ meñ kahte haiñ musalmān ga.e

hai ḳhushī un ko ki ka.abe ke nigahbān ga.e

manzil-e-dahr se ūñToñ ke hudī-ḳhvān ga.e

apnī baġhloñ meñ dabā.e hue qur.ān ga.e

ḳhanda-zan kufr hai ehsās tujhe hai ki nahīñ

apnī tauhīd kuchh paas tujhe hai ki nahīñ

ye shikāyat nahīñ haiñ un ke ḳhazāne māmūr

nahīñ mahfil meñ jinheñ baat bhī karne shu.ūr

qahr to ye hai ki kāfir ko mileñ huur o qusūr

aur bechāre musalmāñ ko faqat vāda-e-hūr

ab vo altāf nahīñ ham pe ināyāt nahīñ

baat ye kyā hai ki pahlī mudārāt nahīñ

kyuuñ musalmānoñ meñ hai daulat-e-duniyā nāyāb

terī qudrat to hai vo jis na had hai na hisāb

jo chāhe to uThe sīna-e-sahrā se habāb

rah-rav-e-dasht ho sailī-zada-e-mauj-e-sarāb

tān-e-aġhyār hai rusvā.ī hai nādārī hai

kyā tire naam pe marne evaz ḳhvārī hai

banī aġhyār ab chāhne vaalī duniyā

rah ga.ī apne liye ek ḳhayālī duniyā

ham to ruḳhsat hue auroñ ne sambhālī duniyā

phir na kahnā huī tauhīd se ḳhālī duniyā

ham to jiite haiñ ki duniyā meñ tirā naam rahe

kahīñ mumkin hai ki saaqī na rahe jaam rahe

terī mahfil bhī ga.ī chāhne vaale bhī ga.e

shab aaheñ bhī ga.iiñ sub.h ke naale bhī ga.e

dil tujhe de bhī ga.e apnā sila le bhī ga.e

aa ke baiThe bhī na the aur nikāle bhī ga.e

aa.e ushshāq ga.e vāda-e-fardā le kar

ab unheñ DhūñD charāġh-e-ruḳh-e-zebā le kar

dard-e-lailā bhī vahī qais pahlū bhī vahī

najd ke dasht o jabal meñ ram-e-āhū bhī vahī

ishq dil bhī vahī husn jaadū bhī vahī

ummat-e-ahmad-e-mursil bhī vahī bhī vahī

phir ye āzurdagi-e-ġhair sabab kyā ma.anī

apne shaidāoñ pe ye chashm-e-ġhazab kyā ma.anī

tujh ko chhoḌā ki rasūl-e-arabī ko chhoḌā

but-garī pesha kiyā but-shikanī ko chhoḌā

ishq ko ishq āshufta-sarī ko chhoḌā

rasm-e-salmān o uvais-e-qaranī ko chhoḌā

aag takbīr sīnoñ meñ dabī rakhte haiñ

zindagī misl-e-bilāl-e-habashī rakhte haiñ

ishq ḳhair vo pahlī adā bhī na sahī

jāda-paimāli-e-taslīm-o-razā bhī na sahī

muztarib dil sifat-e-qibla-numā bhī na sahī

aur pābandi-e-ā.īn-e-vafā bhī na sahī

kabhī ham se kabhī ġhairoñ se shanāsā.ī hai

baat kahne nahīñ bhī to harjā.ī hai

sar-e-fārāñ pe kiyā diin ko kāmil ne

ik ishāre meñ hazāroñ ke liye dil ne

ātish-andoz kiyā ishq hāsil ne

phūñk garmi-e-ruḳhsār se mahfil ne

aaj kyuuñ siine hamāre sharer-ābād nahīñ

ham vahī soḳhta-sāmāñ haiñ tujhe yaad nahīñ

vādi-e-najd meñ vo shor-e-salāsil na rahā

qais dīvāna-e-nazzāra-e-mahmil na rahā

hausle vo na rahe ham na rahe dil na rahā

ghar ye ujḌā hai ki raunaq-e-mahfil na rahā

ai ḳhushā aañ roz ki aa.ī o ba-sad naaz aa.ī

be-hijābāna sū-e-mahfil-e-mā baaz aa.ī

bāda-kash ġhair haiñ gulshan meñ lab-e-jū baiThe

sunte haiñ jām-ba-kaf naġhma-e-kū-kū baiThe

daur hañgāma-e-gulzār se yaksū baiThe

tere dīvāne bhī haiñ muntazir-e-hū baiThe

apne parvānoñ ko phir zauq-e-ḳhud-afrozī de

barq-e-derīna ko farmān-e-jigar-sozī de

qaum-e-āvāra ināñ-tāb hai phir sū-e-hijāz

le uḌā bulbul-e-be-par ko mazāq-e-parvāz

muztarib-e-bāġh ke har ġhunche meñ hai bū-e-niyāz

zarā chheḌ to de tishna-e-mizrāb hai saaz

naġhme betāb haiñ tāroñ se nikalne ke liye

tuur muztar hai usī aag meñ jalne ke liye

mushkileñ ummat-e-marhūm āsāñ kar de

mor-e-be-māya ko ham-dosh-e-sulaimāñ kar de

jins-e-nā-yāb-e-mohabbat ko phir arzāñ kar de

hind ke dair-nashīnoñ ko musalmāñ kar de

jū-e-ḳhūñ chakad az hasrat-e-dairīna-e-mā

tapad naala ba-nishtar kada-e-sīna-e-mā

bū-e-gul le ga.ī bairūn-e-chaman rāz-e-chaman

kyā qayāmat hai ki ḳhud phuul haiñ ġhammāz-e-chaman

ahd-e-gul ḳhatm huā TuuT gayā sāz-e-chaman

uḌ ga.e Dāliyoñ se zamzama-pardāz-e-chaman

ek bulbul hai ki mahv-e-tarannum ab tak

us ke siine meñ hai naġhmoñ talātum ab tak

qumriyāñ shāḳh-e-sanobar se gurezāñ bhī huiiñ

pattiyāñ phuul jhaḌ jhaḌ ke pareshāñ bhī huiiñ

vo purānī ravisheñ baaġh vīrāñ bhī huiiñ

Dāliyāñ pairahan-e-barg se uryāñ bhī huiiñ

qaid-e-mausam se tabī.at rahī āzād us

kaash gulshan meñ samajhtā koī fariyād us

lutf marne meñ hai baaqī na maza jiine meñ

kuchh maza hai to yahī ḳhūn-e-jigar piine meñ

kitne betāb haiñ jauhar mire ā.īne meñ

kis qadar jalve taḌapte haiñ mire siine meñ

is gulistāñ meñ magar dekhne vaale nahīñ

daaġh jo siine meñ rakhte hoñ vo laale nahīñ

chaak is bulbul-e-tanhā navā se dil hoñ

jāgne vaale isī bāñg-e-dirā se dil hoñ

yaanī phir zinda na.e ahd-e-vafā se dil hoñ

phir isī bāda-e-dairīna ke pyāse dil hoñ

ajamī ḳhum hai to kyā mai to hijāzī hai mirī

naġhma hindī hai to kyā lai to hijāzī hai mirī